بکری نے شیر کا بچا کیوں پالا اردو کہانی

بکری نے شیر کا بچہ کیوں پالا 


 

 

تو دوستو ایک  ایسی کہانی ہم آپ کو آج سنانے والے ہیں

جس میں ایک بکری نے شیر کے بچے کو پالا

لیکن جب وہ بچہ بڑا ہوا تو اس نے بکری کے ساتھ کچھ ایسا کیا جسے سن کر آپ بھی حیران رہ جائیںگے

تو چلیے آغاز کرتے ہیں آج کی اس دلچسپ کہانی کا

پیارے دوستو ایک گھنا جنگل تھا جہاں ایک بکری اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتی تھی

ایک بار اپنے بچوں کے لیے کھانا ڈھوننے جنگل میں گئی اور بکری نے اپنے بچوں کو یہ ہدایت کی

کہ بیٹا یہ جو غار ہے جہاں ہم رہتے ہیں اس سے باہر نہیں نکلنا

میں نے سنا ہے کہ اس جنگل میں بہت خاطرناک شیر آیا ہوا ہے اور وہ چھوٹے بچوں کو کھا لیتا ہے

اس طرح اس بکری نے اپنے بچوں کو سمجھا دیا اور ان سے اندر رہنے کے لیے کہا

لیکن وہ تو بچے تھے دوستو اور کھیلنا کودنا چاہتے تھے

جب ماں کو دیر ہو گئی کھانا ڈھوننے میں تو بچے باہر نکل کر کھیلنے لگے

دوسی طرف وہ شیر تو موقع کی تاک میں تھا بھوکا تھا للچائی نظروں سے دیکھ رہا تھا

اور اس نے جھپٹ کر اپنے بڑے بڑے نکیلے دانت نکال کر ان بکری کے دونوں بچوں کو کھا لیا

ماں جب واپس لوٹی تو کیا دیکھتی ہے کہ بچے تو موجود نہیں تھے لیکن ان کی ہڈیاں پڑی ہوئی تھیں

بکری سمجھ گئی اور تڑپ کر رہ گئی وہ کیا کر سکتی تھی

فطرت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ایک خون خار چانور نے ایک شیر نے اس کے بچوں کو کھا لیا تھا

بکری روتی رہی اور آسمان کی طرف دیکھتی رہی اور کہتی رہی کہ اے اللہ میرے بچے مجھ سے لے لئے گئے

ایک ماں سے بڑا امتحان لے لیا لیکن میں صبر کروں گی کوئی شکواں نہیں کروں گی

لیکن اس شیر نے بہت برا کیا بکری کے دل میں شیر کے لیے  نفرت آ گئی

لیکن اللہ تبارک و تعالی نے اس بکری سے دوبارہ ایک امتحان لینا تھا

دوستو بکری کی فطرت کیا ہے یہ دیکھنا تھا

ایک بار بکری اداس بیٹھی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کیا کروں

میرے بچے تو نہیں ہیں چلو کھانے کی تلاش میں نکلتی ہوں

اچانک جنگل میں طوفانی بارش شروع ہو گئی

اب وہ چلتی جا رہی تھی کہ چانک اس کو کسی کے کرانے کی آواز آئی

جیسے کوئی درد کی وجہ سے تڑپ رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ میری مدد کرو

لیکن وہ آواز صاف طور پر سنائی نہیں دے رہی تھی

بکری نے چاروں طرف نظر دڑھائی تو اسے ایک شیر کا بچہ پڑا ہوا نظر آیا

وہ بہت چھوٹا بچہ تھا ایسا لگ رہا تھا کہ ابھی ابھی پیدا ہوا ہے

اور چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہے وہ بیمار بھی لگ رہا تھا

بکری نے اسے بار بار دیکھ کر نظر انداز کر لیا اور اس سے نظریں چرانی

کہ میں اس کو کیوں دیکھوں چھوٹا ہے تو کیا ہوا

ہے تو شیر کا بچہ اور ایک شیر نے ہی میرے دونوں بچوں کو کھا لیا تھا

نہیں نہیں میں کوئی نیکی نہیں کروں گی

بکری اس شیر کے بچے کو نظر انداز کر کے جا رہی تھی

کہ ایک دم سے اس کے دل میں خیال آیا کہ شیر نے تو تمہارے بچوں کو کھا لیا تھا

لیکن تم تو ایک بچے کے ساتھ ایسا نہیں کر سکتی ہو

اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل میں نیکی ڈالی ہے محبت ڈالی ہے

اور محبت تو ہر کسی کے لیے ہونی چاہیے

یہ تمہارا بچہ نہیں ہے تو کیا ہوا

کسی ماں کا تو بچہ ہو گا

بس یہ خیال دل میں آنا تھا کہ اس بکری کو شیر کے بچے پر رحم آ گیا

بھوکے شیر کے بچے نے حسرت سے بکری کی طرف دیکھا

بکری سمجھ گئی کہ یہ بہت بھوکا ہے

اور کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں ہے

اس نے شیر کے بچے کو اپنا دودھ پلایا

اتنی دیر میں بارش رک گئی

بکری نے غار میں اس کو رکھ کر وہاں سے جانے کا ارادہ کیا

لیکن پھر اسے خیال آیا کہ کہیں شیر کا یہ بچہ کیلے پڑے پڑے مر نہ جائے

لہٰذا بکری اس کے پاس رک گئی

دو تین دن اپنے گھر نہیں گئی

بلکہ شیر کے بچے کی دیکھ پھال کرتی رہی

دوستو اس بکری کی دیکھ پھال کی بدولت شیر کا وہ بچہ تندرست ہو گیا

اب بکری نے سوچا کہ شیر کا بچہ تندرست ہو گیا ہے اب میں اپنے گھر چلی جاتی ہوں

لیکن پھر بکری کو اس پر رحم آ گیا

کہ نہ جانے اس کے ماں باپ کہاں ہیں

یہ بیچارہ اکیلے میں گھبرائے گا

کہیں یہ بچہ کسی شکاری کا نشانہ ہی نہ بن جائےچنانچہ بکری اسے گھر لے آئی 

اب شیر کا بچہ بکری کے ساتھ رہنے لگا

کیونکہ وہ اب اس کی ماں بن گئی تھی

یعنی پالنے والی ماں بن گئی تھی

بکری نے پڑے پیار سے شیر کے بچے کو پالنا شروع کر دیا

اور اسے بہت محبت کرتی اور اپنے سینے سے لگائے رکھتی

اب اللہ تعالیٰ نے بکری کو اس کے بھی بچے دیئے

یعنی بکری کے بچے پیدا ہوئے

لیکن اس نے اپنے بچوں میں اور شیر کے بچے میں کوئی فرق نہیں کیا

بلکہ اسی طرح سے پیار کرتی رہی

وہ شیر تو یہی سمجھ رہا تھا کہ یہی بکری میری ماں ہے

ماں سمجھ کر اس کے ساتھ رہا کرتا تھا

پھر  ایک دن شیر بڑا ہو گیا اور بکری بوڑی ہو گئی

بکری کے دل میں اکثر یہ ڈر آتا رہتا تھا

اس کو خوف آ جاتا تھا کہ میں نے اللہ پاک کی ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے

ایک ماں بن کر اس شیر کو پالا ہے

لیکن اب اس کو بچپن میں تو یہ بات معلوم نہیں تھی

مگر اب یہ جوان ہے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ میں بکری ہوں

اور یہ شیر ہے

اور شیر کا کام تو بکری کو کھانا ہے

اپنے سے کمزور جانوروں پر حملہ کرنا ہی ہے

بکری یہ سوچتی کہ کیا مجھے بھی کھا لے گا

اور میرے بچوں کو بھی کھا لے گا

اللہ پاک سے دعا کرتی تھی

کہ یا اللہ تیری ذات پر بھروسہ کرتے ہوئے

میں نے اس کو پالا ہے

ماں بن کر پالا ہے

اس کا کوئی نہیں تھا

اے اللہ تو ہی سب سے بڑی حفاظت کرنے والا ہے

اس شیر کے دل میں میری محبت ڈال دے

دوستو شیر اب جوان ہو چکا تھا

بکری کا بہت خیال رکھتا تھا

بکری سے کہتا تھا کہ تم بوڑھی ہو گئی ہو ماں

اب میں تمہارا خیال رکھوں گا

اور جو میرے چھوٹے چھوٹے بھائی ہیں ان کا بھی خیال رکھوں گا

اب تمہیں جنگل میں کہیں جانے کی ضرورت نہیں ہے

میں تمہارے لیے کھانے کا انتظام کروں گا

بکری اس کو دعا دیتی تھی

اب اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی دیکھئے

ایک بار وہی بکری گھاس کھا رہی تھی

اس کے آس پاس اس کے بچے بھی کھیل رہے تھے

کہ اچانک وہاں پر ایک خونخار شیر آ گیا

وہ درندہ اس بکری کو اور اس کے بچوں کو کھانا چاہتا تھا

لیکن یہاں پر جوان شیر تھا

جسے بکری نے پالا تھا

وہ سینہ تان کر اس کے سامنے کھڑا ہو گیا

اور اس نے کہا کہ تم میری ماں کو کچھ نہیں کر سکتے

وہ شیر کہنے لگا کہ ارے تم تو میرے ساتھی ہو

ہمارا کام ان بکریوں کو اور ان کے بچوں کو کھانا ہے

یہ ہماری خوراک ہیں

تو جسے بکری نے پالا تھا وہ شیر کہنے لگا

کہ تم جو بھی کہہ رہے ہو

میں تمہاری باتوں پر یقین نہیں کرتا

جس وقت میں چھوٹا تھا میرا کوئی نہیں تھا

تو اس بکری نے میری حفاظت کی تھی

یہ میری ماں بنی تھی

تندرست ہو گیا ہوں

تو کیا میں اس کو کھالوں گا

یا تمہیں کھانے دوں گا

ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا

اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس کی محبت ڈالی ہے

اس کو تو کیا اس کے بچوں کو بھی ہاتھ نہیں لگا سکتا

یہاں کا کوئی جنگلی جانور

ان کے گھر کو نہیں اجار سکتا

میں ان کی حفاظت کے لیے یہاں پر معمور کیا گیا ہوں

جو شیر حملہ کرنے آیا تھا  وہ غرانے لگا

اور کہنے لگا کہ تُو پاگل ہو گیا ہے

ارے اس کو کھالے اور اسے اپنا پیٹ بھر

اس نے کہا کہ تُو اپنا پیٹ پھرنے آیا ہے

انہیں کھانے آیا ہے

لیکن میں ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا

اور اس پر چھپٹا مارا اور اپنے نوکیلے پنجے اس کی گردن پر گاڑ دیئے

اور اپنے دانتوں سے اس کی گردن دبا دی

اور اسے مارتے ہوئے کہنے لگا

کہ تجھے میں ختم کر دوں گا

تو اس بکری کا جسے میں ماں سمجھتا ہوں

اس کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا

پھر اس نے اس شیر کا خاتمہ کر دیا 

یہاں پر بکری کی آنکھوں میں آنسو آ گئے

بکری کہنے لگی کہ میرے مالک میرے مولا

میں نے کتنی محبت سے تیری ذات پر یقین کرتے ہوئے

اس شیر کے بچے کو اپنا بچہ بنایا

اور آج سچ میں میرا بیٹا بن گیا

تو اس طرح ایک بکری نے شیر کے بچے کو پالا

اور وہ شیر اس کا بچہ بن کر رہ گیا

اس کا بیٹا بن کر رہ گیا

 آج کل کے بچے تو ماں باپ کو بہت ہی کم سمجھتے ہیں

اپنے ماں باپ کو عزت تک نہیں دیتے

حلانکہ ماں باپ نے کتنی مشکلوں سے انہیں پالا ہے

یہ وہ بھول چکے ہوتے ہیں

آج کے بچے انہیں اپنے ماں باپ کی کوئی فکر نہیں

کوئی قدر نہیں

اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں کی نیچے جنت رکھی ہے

تو جنت کا دروازہ باپ کو بنایا ہے

پیارے دوستو اپنے ماں باپ کی عزت قدر

اور ان کا احترام اور ان کی خدمت کیا کیجئے